اشاعتیں

 تورخم بارڈر پاک افغان ایسا نہیں کہ جو مجھے پہلے پسند تھا اب پسندیدگی کے معیار پہ بدلنے کے بعد، پہلے والے کی قدر گھٹ گئی ہے۔۔ جیسے مجھے پہلے پسند تھا اب بھی ویسے ہی محبت اور دلبریزی کے ساتھ عشق کرتا ہوں۔ مکالمے میں ایک بحث چھڑ گئی کہ درمیان کی لکیر اہمیت رکھتی ہے،  لیکن میرا کہنا اور ماننا ہے کہ "درمیانی لکیر کے نا ہونے سے بہت زیادہ ٹائٹ اور چھوٹے ہونے کی علامت ہے". جتنے موٹے ہونگے اتنی ہی درمیانی لکیر سوئی کے برابر ہوگی۔ بحث لمبی ہوگئی، رات کے آخری پہر مثال نا ملنے پہ، بحث کو ختم کرنے کیلئے جوڑ توڑ کے میری بات پہ اکتفاء ہوگیا۔ یہ بڑا ہی کمال نقطہ ہے کہ ٹائٹ ہوں اور ساتھ میں چھوٹے بھی، کیوں کہ ہمشہ دیکھا اور تجربہ ہوا کہ جتنے بڑے ہونگے اتنے ہی لٹک گئے ہونگے اور پھر یہ بھی ظاہر ہوا کہ درمیانی لکیر موٹے ہونے کی وجہ سے بنتی ہے۔ اس لئے میرا ماننا تھا کہ بھلے ہی چھوٹے ہوں مگر ٹائٹ کڑک ہوں۔  زندگی میں صرف ایک شخصیت کے پاس ایسا کماااال حسن دیکھا،  وہ رنگت میں بلیک سانولی تھی، مگر ان کا فگر شاید ہی کسی کے پاس اس طرح کی سٹرانگ اور خوبصورتی منوانی والی ہو۔۔۔    ........
 میرے بچپن کی محبت ❤️  وہ میرے محلے کی سب سے پیاری لڑکی تھی، انیس بیس سال کے لڑکوں کی پسندیدہ اور سب کی خواہش تھی، ہر لڑکا کوشش میں تھا کہ یہ لڑکی کسی نا کسی طرح ہم سے بات کرے۔۔ وہ یقینا چنچل اور رومانوی آنکھوں والی لڑکی تھی۔۔ نیلی آنکھیں، رخسار پہ ایک ہلکا سا تل، دریاؤں کی موجوں جیسی گال پہ ڈمپل اور ہنستے ہونٹوں کی مسکراہٹ انتہائی پیاری تھی۔       ******************* آٹھویں کلاس میں فیل ہونے کے بعد ابا حضور نے سزا کے طور پر بلوچستان کوئٹہ بھیج دیا، وہاں تین سال آرمی سیکورٹی میں رہنے کے بعد لاہور میں دس سال چوکیداری کی، اور کچھ نا چاہنے والے واقعات کی وجہ سے سیالکوٹ آیا،  بلوچستان سے لیکر پنجاب کے شہر لاہور اور سیالکوٹ تک 16 سال گزر چکے تھے۔ سردیوں کی ٹھنڈی خاموش راتوں میں لفظوں کے نشیب و فراز سے ناواقف میں سالار رومانوی تحریر لکھ رہا تھا۔۔ کسی ایک تحریر پہ اس رات ماں بہن کی گالیاں بھی خوب ملی تھی۔۔۔۔ رات کے نصف پہر اچانک پیغام موصول ہوا فیس بک پہ۔۔۔کہ تم یہ گندہ لکھنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے، جبکہ آپ کو اتنی گالیاں بھی پڑ رہی؟ "محترمہ اگر میں لکھنا چھوڑ دوں تو...
 گھٹنوں کے بل بیٹھ کے، پورا زور اپنے ہیپس کے نرم گوشت پہ لگایا ہوا تھا، پنڈلیوں کے سرہانے پہ ہیپس کے آخری سِروں کا پڑاؤ ایک لطفانہ نظیر تھا،  نرملی کمر کے آخری حصے سے ہیپس کی اندھاکو لکیر جہاں سے شروع ہوتی تھی، کسی ٹنل میں اندر جاتے ہوئے ایک بے نظیر نظارہ تھی،  بال کولہوں کے آخر تک آئے تھے، بہتی آبشاروں کے ساتھ جھاڑیوں کی سرسبزی کا ایک دلکش نظارہ تھا، میری ایک خواہش یہاں دم توڑ گئی تھی۔۔۔ ہیپس کی اندھیری لکیر میں مجھے اس تصویر کے اندر ہی سرمے دانی کے اس چولے نما ابھرے ہوئے ٹکڑے تک پہنچنا تھا۔۔۔ میرے جسم کی اکسیری زبان سر اٹھانے لگی تھی، ایک عجب خاموشی تھی اس وقت،  میرے چہرے کی ٹمپریچر کئی گنا بڑھ گئی تھی،  حالت خراب تھی، کہیں ایسا گڑھا مل جائے جس میں، میں اپنے اس تپش کی ساری گرمجوشی کو نکال پھینک سکوں،  ناکام تھا اور میرا دماغ میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔   ********************* تصویر بناتے وقت ہمارے ذہن میں اس شخص کے (جس کیلئے عکس بندی کرتے ہیں) تصور کی کئی باتیں ہوتی ہیں،  جس کیلئے ہم تصویر یا ویڈیو بناتے ہیں اس کی باتیں، آواز، لہجہ، اس کی رومانوی...
 حسین ترین رشتہ، اعتبار کے اعلی مقام پہ وہ رشتہ ہوتا ہے جس میں دونوں میاں بیوی سوشل میڈیا پہ موجود رہ کر ایک دوسرے کے کمنٹ، پوسٹ اور انباکس کے اندر تک کا حال جانتے ہیں۔ ایسے لوگ رئیل زندگی میں بہت سنسیر ہوتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ، ان کی زندگی میں کسی تیسرے کا آنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔  ہاں اس کے باوجود بھی اگر دونوں میں سے اپنے لئے دوسرا رشتہ تلاش کرے یا تیسرا رستہ مل جائے تو خاندان، معاشرے اور عزت کی دھجیاں اڑ جاتی ہے۔ سالار خان #بےاعتباری
 چند بوندیں بہت قیمتی تھی،  زمین کے کوکھ سے نکل کے کسی بڑے تلاب میں وہ بوندیں جمع ہوئیں،  کچھ عوامل مل کر یہ بوندیں وہاں خوش نصیب بنی، جب ان کے انگلیوں کے اجازت سے ان کے نرم بالوں پہ گری،  نرم افزار، ملائم بالوں کے آخری پیوست جڑوں میں جذب ہوکے تار تار کندھوں پہ گری،  رقصِ گلاں کرتی کندھوں کے ابھرے ہوئے ٹہنیوں پہ پھسلتی سنبھلتی گردن کے ہڈیوں سے ٹکڑائی،  ہتھیلیوں کے زور دار دھکے سے،  جاگ کے بھرے ہوئے بادلوں میں چھپ کر رخ دست سے دوبارہ کان کے لو میں خود کو سمٹ لیا، گرتے ہوئے بوندوں میں رقیبوں کے جھال سے نکل کر سیدھے چھاتیوں کے بے رحم پھسلن پہ ٹھہرنے کا موقع ہی نا ملا، اور ابھرے ہوئے نیم گلابی "نپل" کے ستونوں میں گول گھومتی، ناچتی اپنی قسمت پہ ناز کرتی وہ بوندیں۔۔۔  آنکھوں کی نظروں سے دور ہوتی ہوئی نپل کے اس ٹکراؤ کو یاد کرتی، ٹپک ٹپک کر سر کے بل فرش پہ گری۔۔۔ تب تک خوش قسمت تھی جب تک تمہارے جسم کے بال سے نکلتی اور ڈوبتی تمہارے جسم سے پیوست تھی۔۔ جیسے ہی سر کے بل گری تو تمہارے پاؤں کے انگلیوں کو چومتی اپنی راہ چل دی۔   ******************** قمیص ا...
 وہ میرے محلے کی سب سے پیاری لڑکی تھی، انیس بیس سال کے لڑکوں کی پسندیدہ اور سب کی خواہش تھی، ہر لڑکا کوشش میں تھا کہ یہ لڑکی کسی نا کسی طرح ہم سے بات کرے۔۔ ہم اسے ان کے چہرے کے مشابہت کی وجہ سے بیپاشا باسو کہتے تھے، وہ یقینا چنچل اور رومانوی آنکھوں والی لڑکی تھی۔۔       ******************* آٹھویں کلاس میں فیل ہونے کے بعد ابا حضور نے سزا کے طور پر بلوچستان کوئٹہ بھیج دیا، وہاں تین سال آرمی سیکورٹی میں رہنے کے بعد لاہور میں دس سال چوکیداری کی، اور کچھ نا چاہنے والے واقعات کی وجہ سے سیالکوٹ آیا،  بلوچستان سے لیکر پنجاب کے شہر لاہور اور سیالکوٹ تک 16 سال گزر چکے تھے۔ سردیوں کی ٹھنڈی خاموش راتوں میں لفظوں کے نشیب و فراز سے ناواقف میں سالار رومانوی تحریر لکھتا تھا۔۔ کسی ایک تحریر پہ اس رات ماں بہن کی گالیاں بھی خوب ملی تھی۔۔۔۔ اچانک مسینجر پہ ایک میسج آیا۔۔ تم یہ گندہ لکھنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے، جبکہ آپ کو اتنی گالیاں بھی پڑ رہی؟ "محترمہ اگر میں لکھنا چھوڑ دوں تو دنیا میں کوئی اور ایسا پیدا ہوگا جو میری طرح لکھے گا، اور آپ جیسی حسینائیں ان کے انباکس میں رات کے اس پہر ج...

Salar Khan

 فضول کاپی پیسٹ شاعری، گوگل سے لی گئی تصاویر کو پوسٹ کرنا، یا اپنی بے بسی بیان کرنے سے پہلے میرے خیال میں ہمیں ایسے لوگوں کو ایکسپوز کرنا ہوگا جو قوم و ملت کیلئے عذاب پیدا کرنے کا وجوب بنتے ہیں  میں خود گھر سے کھانا بنوا کے لاتا ہوں، جسٹ ایک گلاس پانی اور بیٹھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے سامنے ایک پٹھان اسی ہوٹل والے حاجی صاحب کے ساتھ بحث میں لگے تھے۔ مکالمہ تھا پٹھان کا۔۔۔۔ حاجی صاحب 580 روپے کیسے بنتے ہیں ؟ جائز بتائیں۔ ایک پلیٹ دال ماش اور تین روٹیاں تھیں۔۔۔ حاجی صاب نظریں چراتے، سروس کے 300 روپے ہیں،  پٹھان حیرانگی سے۔۔ حاجی صاب آسمان نظر نہیں آرہا، کیا آپ صرف اسی کے چارجز لیتے ہیں ؟ لمبی بحث کے بعد حاجی صاب لاجواب ہوگئے تھے۔۔ پٹھان نے ایک ہزار کا نوٹ پکڑایا تو حاجی صاب سے صرف دو روپے کاٹے اور بقایا 800 پٹھان کو پکڑا دئیے،  پٹھان نے ٹیبل پہ 8 سو رکھ دیے،  حاجی صاب جائز پیسہ لو، ہمارا ایک پلیٹ اور تین روٹیوں کے اتنے نہیں بنتے.... مزید بحث اور لڑائی بنتی جا رہی تھی تو ساتھ والے سارے لوگ آئے اور پٹھان کو گاڑی میں بٹھایا۔۔۔ سرگودھا شہر میں یہ ہوٹل، میرے ساتھ ایڈ بھ...