میرے بچپن کی محبت ❤️
وہ میرے محلے کی سب سے پیاری لڑکی تھی، انیس بیس سال کے لڑکوں کی پسندیدہ اور سب کی خواہش تھی، ہر لڑکا کوشش میں تھا کہ یہ لڑکی کسی نا کسی طرح ہم سے بات کرے۔۔
وہ یقینا چنچل اور رومانوی آنکھوں والی لڑکی تھی۔۔ نیلی آنکھیں، رخسار پہ ایک ہلکا سا تل، دریاؤں کی موجوں جیسی گال پہ ڈمپل اور ہنستے ہونٹوں کی مسکراہٹ انتہائی پیاری تھی۔
*******************
آٹھویں کلاس میں فیل ہونے کے بعد ابا حضور نے سزا کے طور پر بلوچستان کوئٹہ بھیج دیا، وہاں تین سال آرمی سیکورٹی میں رہنے کے بعد لاہور میں دس سال چوکیداری کی، اور کچھ نا چاہنے والے واقعات کی وجہ سے سیالکوٹ آیا،
بلوچستان سے لیکر پنجاب کے شہر لاہور اور سیالکوٹ تک 16 سال گزر چکے تھے۔
سردیوں کی ٹھنڈی خاموش راتوں میں لفظوں کے نشیب و فراز سے ناواقف میں سالار رومانوی تحریر لکھ رہا تھا۔۔ کسی ایک تحریر پہ اس رات ماں بہن کی گالیاں بھی خوب ملی تھی۔۔۔۔ رات کے نصف پہر اچانک پیغام موصول ہوا فیس بک پہ۔۔۔کہ
تم یہ گندہ لکھنا کیوں نہیں چھوڑ دیتے، جبکہ آپ کو اتنی گالیاں بھی پڑ رہی؟
"محترمہ اگر میں لکھنا چھوڑ دوں تو دنیا میں کوئی اور ایسا پیدا ہوگا جو میری طرح لکھے گا، اور آپ جیسی حسینائیں ان کے انباکس میں رات کے اس پہر جا کر یہی سوال کرے گی تو میرے نا لکھنے سے آپ جیسی حسیناوں کے میرے ساتھ میسج نا ہونے کا نقصان ہو جائے گا۔۔"
میرے اس ایک میسج نے ان کے دل میں میری جگہ بنائی۔۔ ان کے سوال میں میرے جواب نے ان کو میرے بہت قریب کردیا، اور بات میسج سے کال تک چلی گئی۔
*****************
پہلے تو یقین نہیں ہورہا تھا کہ میں ویڈیو کال پہ اتنی حسین پیاری لڑکی سے بات کررہا ہوں۔
آپ کہاں رہتی ہے؟؟
سالار میں کرک سے ہوں!
کرک میں کہاں سے؟
سالار آپ کرک کو جانتے ہیں ؟
ہاں جانتا ہوں۔۔۔ میرے کافی دوست کرک سے ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ کرک میں کہاں رہتی ہے؟
سالار۔۔۔۔۔ ایک ہی رات میں اتنے نزدیک آرہے ہو؟ میرا نام جان لیا، میری تصویر کے بعد ویڈیو کال تک آگئے۔۔ اب گھر تک آنا چاہتے ہو کیا؟
میں نے ان کو کمفرٹیبل نہیں سمجھا۔۔
اس لئے بات کو توڑ کر کسی اور موضوع پہ بات کرنے لگا۔۔۔
لیکن گھوما پھرا کے پھر وہی تک بات آتی۔۔
میرے تجسس کا مٹکا بھر چکا تھا،
آپ کرک میں کہاں سے ہے؟
میں کرک کے ایک چھوٹے سے گاؤں "لتمبر" سے۔۔
پہلے ہی کرک کا نام سن کر میرے اندر کا ایک رحم دل سالار جاگ گیا تھا، لیکن جب اپنے گاؤں لتمبر کا نام سنا تو ایسا لگا جیسے میں ہواؤں میں معلق ہوگیا ہوں۔
میرے ہوش و حواس،میری ذہنی توازن اپنی جگہ پہ نہیں تھے۔۔۔
*******************
بڑا ہی مشکل لمحہ ہوتا ہے جب آپ کو کوئی اپنے ہی علاقے کی لڑکی من و عن اسی طرح لوکیشن بتائے جہاں آپ کا پورا بچپن گزرا ہو۔۔۔
ویڈیو کال پہ غور کرنے کے بعد دھندلہ سا وہ چہرہ یاد تھا مگر یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ میں پہچاننے کی کوشش کررہا تھا۔
جب تقدیر دو لوگوں کو ملانا چاہتی ہے تو زبان کے سارے راز بند قفل کی ایک "کن" کے کہنے پہ سارے کھل جاتے ہیں،
ان کے زبان سے ادا ہونے والے اپنے بارے میں الفاظ مجھے ان کی پہچان کرا رہی تھی، اور میں پانچ گھنٹے مسلسل کال پہ ان کے بارے میں سب کچھ جان گیا تھا۔۔۔
*******************
شہر اقبال سے دس دن کی چھٹی ملی تو میں سفر میں بار بار اسی کے بارے میں سوچتا رہا، کیسے تقدیر نے مجھے سولہ سال بعد اس لڑکی سے ملوا دیا۔۔
ہم سارے کلاس فیلو دوست جب بھی چھٹیوں پہ گھر آتے تو کم و بیش ایسے ہوتا تھا کہ اس لڑکی کا ذکر نا ہو۔۔
ان کی اداؤں اور ان کی مسکراہٹ پہ ہماری ہمشہ بات ہوتی تھی،
اشفاق احمد کے دور میں پروگرام "زاویہ" کا ایک نقطہ چھیڑ لیتے تھے، اور ہمارا زاویہ ان کی ہی باتیں ہوتی تھی۔
زین العابدین میرے بہت کلوز دوست تھے، وہ کبھی کبھی کال کرکے بھی پوچھتے تھے
کہ سالار یاررر وہ نیلی آنکھوں والی لڑکی آج کل کہاں ہوتی ہے۔۔
میں تھوڑا رومانوی تھا، تو میں اپنے الفاظ کو ٹھنڈی آہ بھر کے ادا کرتا کہ
یاررر زین اب تو بوڑھی ہوچکی ہوگی، ہمارے بھی بال سفید ہوگئے۔۔ اب وہ ہمیں بھول چکی ہوگی، چھوڑ دیں یاررر
کسی کے بستر میں اپنے اپنی سسکتی آہوں سے اسے اپنے جسم کی لطافت سے راتوں کی رنگینیاں بکھیرتی ہوگی۔ چھوڑو مڑا۔۔۔۔
*******************
چھٹیاں گزر گئی،
میں نے اسے ابھی تک نہیں بتایا کہ میں وہی سالار ہوں جو بچپن میں تمہارے ہیپس پہ ناچتے بیگ سے بھی جلتا تھا۔۔۔
میں وہی سالار ۔۔۔۔ جو تمہارے سینے پہ دوپٹے اور قمیص کو ملانے والی سوئی کے ٹیگ سے بھی جلتا تھا،
میں وہی سالار ہوں جو تمہارے بیگ کا تمہارے چھاتیوں سے مَس ہونے سے بھی جلتا تھا۔
میں وہی سالار ہوں جو گرم ترین دنوں میں بھی سورچ کی تپتی شعاعوں کو برداشت کرکے تمہارے چہرے کی تپش سے سرور لیتا تھا۔
اسے کبھی یہ محسوس تک نہیں ہونے دیا کہ میرے ہنستے چہرے کے پیچھے بچپن کی وہ یادیں جڑی ہیں جو تمہارے ساتھ گزری تھی۔
********************
واپس اپنی جاب پہ آنے کے بعد بھی یہ ہمت نہیں ہورہی تھی کہ میں اپنی پہچان کرا سکوں۔۔
مگر ایک رات ہمت کرلی۔۔
ویڈیو کال پہ چھاتیوں کی لکیر عیاں تھی، وہ اپنے بستر میں بہت اطمینان کے ساتھ بیٹھی تھی، اسے نہیں تھا پتا کہ یہ سکون اب اسے بچپن میں لیکر جائے گی۔۔۔۔۔
پہلے انہیں اس بات پہ ایگری کیا، کہ
یوں کہیے کہ میں آپ کا پڑوسی اور بچپن کا دوست ہوں۔۔
وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔ اچھا یہ تصور یہ خیال اچھا ہے۔
آپ تصور کرلیں کہ میں آپ کے ساتھ پلا بڑھا۔۔ تمہیں بچپن میں دیکھا اور تمہارے سکول جاتے رستوں میں، میں نے تمہارا انتظار کیا۔۔۔
وہ مزید بے فکر ہونے لگی۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ میں مزاق کررہا ہوں۔
میں نے اسے یقین دلانے کیلئے کہا۔۔۔
آپکے بابا میرے استاد ہوا کرتے تھے۔۔
ان کی توجہ میری طرف ہوئی تو بہت حساس اور رنگ پیلا ہوگیا تھا۔۔
اس کا سامنا ایک ایسے شخص سے تھا جو ان کو بچپن سے جانتا تھا۔۔ اور مہینہ پہلے جس نے ان کے جسم کے سارے راز دیکھ لئے تھے۔۔۔
******************
یہ فطرت ہے یا پھر اتفاق کہ عورت سوشل میڈیا پہ دور سے دور ترین شخص کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس کرتی ہے
مگر ان کا پڑوسی ہمسایہ یا پھر اپنے ہی گھر کے کزن، ان کے جسم کیلئے مرتا ہو، تب بھی اسے اپنے عزت اور جسم کا کوئی حصہ نہیں دے گی۔ حالانکہ جسم کی پیاس ہمشہ نزدیکی اور فیزیکل ہونے سے بجھتی ہے۔
مجھے جاننے کے بعد ان کا رویہ بدل گیا۔۔
وہ بلکل ایسے نہیں تھی جو مہینہ پہلے تھی۔
وہ جسم چھپانے لگی تھی۔
وہ اپنے جذبات کا اظہار جب کھل کے کرتی تھی، آج وہ ضبط پتا نہیں کہاں سے آیا کہ وہ اپنے آنسووں کو بھی مجھ سے چھپانے لگی۔۔
کل تک جو میرے برہنہ کندھے پہ سر رکھنے کیلئے تیار تھی، آج ان کے سر پہ دوپٹہ دیکھ کے عجیب لگ رہا تھا۔۔۔
چاند کی روشنی میں میرے ہونٹوں سے لگی سگریٹ پینے والی میری سولہ سال پہلے کی گرل فرینڈ آج میرے ویڈیو کال سے بھی شرما رہی تھی۔۔
مجھے افسوس تھا کہ میں نے اسے اپنی پہچان کیوں کرائی۔۔ میں انجان رہ کر اس کے ہر اس کمال تک پہنچنا چاہتا تھا جو ان کے اندر لاوا بن کے چھپے تھے۔۔۔
ان کیلئے جذبات میرے آج بھی اسی مہتاب کہ طرح چمکتے ہیں جیسے سولہ سال پہلے تھے۔۔
مگر ان کی طرف سے بے توجہی مجھے بار بار کھائی جا رہی ہے۔
میری بچپن کی محبت مجھے بہت ساری پریشانیوں کے ساتھ مل گئی۔
میرے تحریر لکھنے سے لیکر ان کے جان پہچان تک کا سلسلہ قدرتی تختی پہ لکھی گئی ایک مُہر ِمعقل تھی، یا کوئی خواب کی تعبیر!
کوئی معجزہ تھا یا پہلے سے طے شدہ کہانی؟
یا نا قابل یقین وہ نظام جیسے جانور گھاس کھائے اور تنوں سے دودھ کی نہریں نکلیں!
میں حیران تھا، تجسس کی ساری زنجیریں ٹوٹ چکی تھیں۔ اور میں لاجواب ہوچکا تھا۔۔
سالار خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں