گھٹنوں کے بل بیٹھ کے، پورا زور اپنے ہیپس کے نرم گوشت پہ لگایا ہوا تھا، پنڈلیوں کے سرہانے پہ ہیپس کے آخری سِروں کا پڑاؤ ایک لطفانہ نظیر تھا،
نرملی کمر کے آخری حصے سے ہیپس کی اندھاکو لکیر جہاں سے شروع ہوتی تھی، کسی ٹنل میں اندر جاتے ہوئے ایک بے نظیر نظارہ تھی،
بال کولہوں کے آخر تک آئے تھے، بہتی آبشاروں کے ساتھ جھاڑیوں کی سرسبزی کا ایک دلکش نظارہ تھا،
میری ایک خواہش یہاں دم توڑ گئی تھی۔۔۔
ہیپس کی اندھیری لکیر میں مجھے اس تصویر کے اندر ہی سرمے دانی کے اس چولے نما ابھرے ہوئے ٹکڑے تک پہنچنا تھا۔۔۔
میرے جسم کی اکسیری زبان سر اٹھانے لگی تھی، ایک عجب خاموشی تھی اس وقت،
میرے چہرے کی ٹمپریچر کئی گنا بڑھ گئی تھی،
حالت خراب تھی، کہیں ایسا گڑھا مل جائے جس میں، میں اپنے اس تپش کی ساری گرمجوشی کو نکال پھینک سکوں،
ناکام تھا اور میرا دماغ میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
*********************
تصویر بناتے وقت ہمارے ذہن میں اس شخص کے (جس کیلئے عکس بندی کرتے ہیں) تصور کی کئی باتیں ہوتی ہیں،
جس کیلئے ہم تصویر یا ویڈیو بناتے ہیں اس کی باتیں، آواز، لہجہ، اس کی رومانوی غصیلی طبیعت، مزاج کی گرمی اور رومانی لمحے ضرور یاد آتے ہیں، اس لئے جب اس نے یہ تصویر بنائی ہوگی تو مجھے یاد کیا ہوگا،
یہ تصور میرے لئے بھی کسی دلکش خیال سے کم نا تھا۔۔۔ میں بہت خوش تھا۔
********************
کپڑے اتار کر، اپنے جسم کے سارے ابلتے راز کسی کے نظر کرنا، بہت ہی گہری محبت کی نشانی ہے۔
پسینے سے شرابور جسم کے خلیات کو کسی کے نظر میں پیوستِ خار کرنا، جسے دیکھ کے سالار کے ہوش بھی ہوش میں نا رہے، ایسی دلیری ہر عورت نہیں کرسکتی۔
وہ مجھے لبھا نہیں رہی تھی،
کسی بے خیالی میں اس نے یہ دیدار بخشا تو میں خود کے شخصیت پہ حیران تھا۔۔ کوئی اتنا قریب آ کر اچانک میرے جذبات کے ہر قدم کو کیسے جان سکتی ہے
جیسے اسے پتا تھا کہ میں اس وقت ان کے دیدار کا پیاسا طلبگار ہوں۔
وہ تصویر اس کے ڈیلیٹ کردی ۔۔۔۔
مگر وہ ذائقہ اب بھی میرے خیالوں میں ایسی جگہ بنا چکی ہے کہ جو میرے مٹ جانے سے ہی دھل سکتی ہے۔
سالار خان #استانی ❤️
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں